EN हिंदी
میں اپنے آپ سے کب تک تمہارا نام پوچھوں گا | شیح شیری
main apne aap se kab tak tumhaara nam puchhunga

نظم

میں اپنے آپ سے کب تک تمہارا نام پوچھوں گا

جمیل الرحمن

;

پرندوں سے سبق سیکھا شجر سے گفتگو کی ہے
سواد جاں کی خاموشی میں ٹھہرے

ابر تنہائی کی اودی زرد چادر پر
شعاع یاد کے ہاتھوں لکھی ہر بے نوا لمحے کی پوری داستاں

میں نے پڑھی ہے
نشاط انگیز راتوں اور خوابوں کے شفق آلود چہرے کو

جھلستے دن کی خیرہ کن فضا میں
ایک عمر رائگاں کے آئنے میں محو ہو کر کب نہیں دیکھا

برس گزرے رتیں بیتی وطن سے بے وطن ہونے کی ساری بے بسی جھیلی
میں برفانی علاقوں مرغزاروں وادیوں اور ریگزاروں سے

نشان کارواں چنتا صدائے رفتگاں سنتا ہوا گزرا
کہاں ممکن تھا لیکن میں نے جو دیکھا سنا وہ یاد رکھا عجب یہ ہے

نہیں گر حافظے میں کچھ تو وہ اک نام ہے تیرا
خبر کب تھی کہ بہتی عمر کی سرکش روانی میں

مجھے جو یاد رہنا چاہیئے تھا
میں وہی اک نام بھولوں گا

پرندوں اور پیڑوں سے جہاں بھی گفتگو ہوگی
تمہارا ذکر آتے ہی دھندلکے

ذہن میں اک موجۂ تاریک بن کر پھیلتے جائیں گے
اور یہ حافظہ مفلوج آنکھوں سے مجھے

گھورے گا چلائے گا
خوف خود فراموشی سے تم ڈرتے تھے لیکن اب

مآل خود فراموشی سے تم کیسے نبھاؤ گے
غبار اندر غبار انگڑائیاں لیتے ہوئے

رستے میں جو کچھ کھو چکے ہو اس کو کیسے ڈھونڈ پاؤ گے
یہ لازم تو نہیں ہے، ایک ان بوجھی پہیلی جب اچانک یاد آ جائے

اسے ہر حال میں ہر بار بوجھو گے
تم اپنے آپ سے کب تک کسی کا نام پوچھو گے