EN हिंदी
میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں | شیح شیری
main albam ke waraq jab bhi ulaTta hun

نظم

میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں

عین تابش

;

زمانے کھو گئے آئندہ و رفتہ کے میلے میں
زمینیں گم ہوئیں پیکار ہست و نیست میں ایسی

کوئی نقشہ مکانوں اور مکینوں تک
پہنچنے کا ذریعہ بھی نہیں بنتا ہے

تصویریں اب اپنی بستیوں میں
دم بخود سہمی ہوئی نادم پڑی ہیں

میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں
تو کچھ آنسو کے قطرے جھلملاتے ہیں

فسردہ گمشدہ چہرے
غبار نا شناسائی میں

کچھ دھندلے ہیولوں کی طرح
فریاد کرتے ہیں

ورق البم کے گزرے موسموں
مغموم آنکھوں ٹرین کی کھڑکی سے

ہلتے ہاتھوں پیچھے چھوٹتی آبادیوں
کو یاد کرتے ہیں

میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں
کسی دشت فراموشی میں

سوکھے پیڑ پر
اک آخری پتے کی صورت

سارے لمحے مجھ کو تنہا چھوڑ آتے ہیں
میں اس تنہائی کے جنگل میں

لرزاں دل پریشاں رقص کرتا ہوں
میں خود کو بھول جانے کا

یقیناً (حوصلہ باقی نہیں ہے)
سوانگ بھرتا ہوں