میں اکثر سرد راتوں میں
زمین خانۂ دل پر
اکیلے بیٹھ جاتا ہوں
پھر اپنا سر جھکا کر یاد عہد رفتگاں دل میں سجاتا ہوں
خیال ماضیٔ دوراں مرے اس جسم کے اندر عجب طوفاں اٹھاتا ہے
ہزاروں میل کا لمبا سفر پیدل کراتا ہے
میں یادوں کے دھندلکوں میں تمہارے نقش پا کو ڈھونڈنے جب بھی نکلتا ہوں
تو اک تاریک وادی میں اترتا ہوں
جہاں یادوں کی کچھ بے رنگ تصویریں مجھے بکھری پڑی معلوم دیتی ہیں
مجھے آواز دیتی ہیں
کہ وحشت کا یہ جنگل باہیں پھیلائے بلاتا ہے
مرا شوق نظر تھک کر زمین پر بیٹھ جاتا ہے
اچانک جب تمہاری یاد کے وحشی جانور آواز دیتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
کہ جیسے کوئی بچہ اپنے ہی سائے سے ڈر جائے
کوئی شیشہ بکھر جائے
کوئی فرقت میں گھبرائے
مرے تار نفس پر ضرب کرتی مستقل دھڑکن
مجھے رکنے نہیں دیتی
مجھے تھکنے نہیں دیتی
یہ بے چینی مجھے پھر اک سفر پر لے کے آتی ہے
میں چلتا ہوں
کہ جیسے اک مسافر بعد مدت اپنے گھر جائے
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں
کوئی جیسے کہ جم جائے
کہ جیسے سانس تھم جائے
مگر میرے مقدر میں
سکون قلب و جاں کب ہے
نگاہ یاس میں مبہم سہی کوئی نشاں کب ہے
کہیں پر شورش امواج دریا ہے
کہیں آواز قلقل ہے
مگس کا شور ہے سرسر صبا کی آہ و گریہ ہے
سو دل اپنا مچلتا ہے
کسی سے کب بہلتا ہے
دھواں اٹھتا ہے دل سے آنکھ میں طوفاں مچلتا ہے
طبیعت زور کرتی ہے
یہ دھڑکن شور کرتی ہے
تمہاری یاد کے یہ چیختے اور پیٹتے لمحے
مجھے رونے نہیں دیتے
مجھے سونے نہیں دیتے
نظم
میں اکثر سرد راتوں میں
قمر عباس قمر