EN हिंदी
محمود درویش کے لیے خط | شیح شیری
mahmud darwesh ke liye KHat

نظم

محمود درویش کے لیے خط

ذیشان ساحل

;

میرے پیارے سوگوار
مجھے معلوم ہوا ہے

کہ تمہارے لوگوں سے زندہ رہنے کی جگہ
اور حق چھینے جانے کے باعث

تمہارا دل خیریت سے نہیں رہا
مجھے معلوم ہوا ہے

کہ تمہارے بہادروں کو دھوپ سے بچانے والی ٹوپیاں
ان کے خون سے سرخ اور تمہاری صابر عورتوں کے چہرے

غم کی شدت سے سیاہ ہو چکے ہیں
میرے بھائی زیتون کے درختوں پر لگے پھول

اور تمہارے پھولوں جیسے بچوں سے امڈنے والی
خوشبو بارود اور دھویں کی بو میں

بدل چکی ہے
اور میرے دوست

سنا ہے تمہارے سر پر ہاتھ رکھنے والے
اب انہیں ہاتھوں سے تمہارے پیروں کے نیچے زمین کھینچ رہے ہیں

ابھی اس خط کو لکھتے ہوئے ایسا لگا
جیسے کوئی دروازے پر ہے

میں نے دروازہ کھولا
تو باہر دور تک کچھ نہ تھا

نہ کوئی عمارت نہ کوئی گھر
نہ کوئی موسم نہ کوئی دن

نہ کوئی شخص نہ کوئی سایہ
نہ کوئی غم نہ کوئی آنسو

صرف سنانا اور خاموشی
میں نے اپنے دل کا دروازہ بند کر لیا

اور واپس آ گیا
یہاں تمام لوگ موم کے سپاہیوں

اور آنسو زہریلی مسکراہٹوں میں تبدیل ہو گئے ہیں
محمود درویش

تمہیں تسلی دینے اور تمہارے لوگوں کی حمایت میں کہنے
کے لیے میرے پاس سوائے ایک نمناک خاموشی کے

کچھ بھی نہیں
یا کچھ لوگ جو میری طرح

اپنی میزوں کی بند دروازے کے سامنے بیٹھے
ان کے خود بہ خود کھلنے یا کسی اور نہ ہونے والے معجزے کے منتظر ہیں