مشرق کا دیا گل ہوتا ہے مغرب پہ سیاہی چھاتی ہے
ہر دل سن سا ہو جاتا ہے ہر سانس کی لو تھراتی ہے
اتر دکھن پورب پچھم ہر سمت سے اک چیخ آتی ہے
نوع انساں کاندھوں پہ لئے گاندھی کی ارتھی جاتی ہے
آکاش کے تارے بجھتے ہیں دھرتی سے دھواں سا اٹھتا ہے
دنیا کو یہ لگتا ہے جیسے سر سے کوئی سایا اٹھتا ہے
کچھ دیر کو نبض عالم بھی چلتے چلتے رک جاتی ہے
ہر ملک کا پرچم گرتا ہے ہر قوم کو ہچکی آتی ہے
تہذیب جہاں تھراتی ہے تاریخ بشر شرماتی ہے
موت اپنے کٹے پر خود جیسے دل ہی دل میں پچھتاتی ہے
انساں وہ اٹھا جس کا ثانی صدیوں میں بھی دنیا جن نہ سکی
مورت وہ مٹی نقاش سے بھی جوبن کے دوبارہ بن نہ سکی
دیکھا نہیں جاتا آنکھوں سے یہ منظر عبرتناک وطن
پھولوں کے لہو کے پیاسے ہیں اپنے ہی خس و خاشاک وطن
ہاتھوں سے بجھایا خود اپنے وہ شعلۂ روح پاک وطن
داغ اس سے سیہ تر کوئی نہیں دامن پہ ترے اے خاک وطن
پیغام اجل لائی اپنے اس سب سے بڑے محسن کے لئے
اے وائے طلوع آزادی آزاد ہوئے اس دن کے لئے
جب ناخن حکمت ہی ٹوٹے دشوار کو آساں کون کرے
جب خشک ہوا ابر باراں ہی شاخوں کو گل افشاں کون کرے
جب شعلۂ مینا سرد ہو خود جاموں کو فروزاں کون کرے
جب سورج ہی گل ہو جائے تاروں میں چراغاں کون کرے
ناشاد وطن افسوس تری قسمت کا ستارہ ٹوٹ گیا
انگلی کو پکڑ کر چلتے تھے جس کی وہی رہبر چھوٹ گیا
اس حسن سے کچھ ہستی میں تری اضداد ہوئے تھے آ کے بہم
اک خواب و حقیقت کا سنگم مٹی پہ قدم نظروں میں ارم
اک جسم نحیف و زار مگر اک عزم جوان و مستحکم
چشم بینا معصوم کا دل خورشید نفس ذوق شبنم
وہ عجز غرور سلطاں بھی جس کے آگے جھک جاتا تھا
وہ موم کہ جس سے ٹکرا کر لوہے کو پسینہ آتا تھا
سینے میں جو دے کانٹوں کو بھی جا اس گل کی لطافت کیا کہئے
جو زہر پئے امرت کر کے اس لب کی حلاوت کیا کہئے
جس سانس میں دنیا جاں پائے اس سانس کی نکہت کیا کہئے
جس موت پہ ہستی ناز کرے اس موت کی عظمت کیا کہئے
یہ موت نہ تھی قدرت نے ترے سر پر رکھا اک تاج حیات
تھی زیست تری معراج وفا اور موت تری معراج حیات
یکساں نزدیک و دور پہ تھا باران فیض عام ترا
ہر دشت و چمن ہر کوہ و دمن میں گونجا ہے پیغام ترا
ہر خشک و تر ہستی پہ رقم ہے خط جلی میں نام ترا
ہر ذرہ میں تیرا معبد ہر قطرہ تیرتھ دھام ترا
اس لطف و کرم کے آئیں میں مر کر بھی نہ کچھ ترمیم ہوئی
اس ملک کے کونے کونے میں مٹی بھی تری تقسیم ہوئی
تاریخ میں قوموں کی ابھرے کیسے کیسے ممتاز بشر
کچھ ملک کے تخت نشیں کچھ تخت فلک کے تاج بسر
اپنوں کے لئے جام و صہبا اوروں کے لئے شمشیر و تبر
نر و انساں ٹپتی ہی رہی دنیا کی بساط طاقت پر
مخلوق خدا کی بن کے سپر میداں میں دلاور ایک تو ہی
ایماں کے پیمبر آئے بہت انساں کا پیمبر ایک تو ہی
بازوئے فردا اڑ اڑ کے تھکے تری رفعت تک جا نہ سکے
ذہنوں کی تجلی کام آئی خاکے بھی ترے ہاتھ آ نہ سکے
الفاظ و معنی ختم ہوئے عنواں بھی ترا اپنا نہ سکے
نظروں کے کنول جل جل کے بجھے پرچھائیں بھی تیری پا نہ سکے
ہر علم و یقیں سے بالاتر تو ہے وہ سپہر تابندہ
صوفی کی جہاں نیچی ہے نظر شاعر کا تصور شرمندہ
پستئ سیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی
ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم کی وسعت دی
ہر سانس سے درس امن دیا ہر جبر پہ داد الفت دی
قاتل کو بھی گر لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی
ہنسا کو اہنسا کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا
نفرت کی ماری دنیا میں اک پریم سندیسہ لایا تھا
اس پریم سندیسے کو تیرے سینوں کی امانت بننا ہے
سینوں سے کدورت دھونے کو اک موج ندامت بننا ہے
اس موج کو بڑھتے بڑھتے پھر سیلاب محبت بننا ہے
اس سیل رواں کے دھارے کو اس ملک کی قسمت بننا ہے
جب تک نہ بہے گا یہ دھارا شاداب نہ ہوگا باغ ترا
اے خاک وطن دامن سے ترے دھلنے کا نہیں یہ داغ ترا
جاتے جاتے بھی تو ہم کو اک زیست کا عنواں دے کے گیا
بجھتی ہوئی شمع محفل کو پھر شعلۂ رقصاں دے کے گیا
بھٹکے ہوئے گام انساں کو پھر جادۂ انساں دے کے گیا
ہر ساحل ظلمت کو اپنا مینار درخشاں دے کے گیا
تو چپ ہے لیکن صدیوں تک گونجے گی صدائے ساز تری
دنیا کو اندھیری راتوں میں ڈھارس دے گی آواز تری
نظم
مہاتما گاندھی کا قتل
آنند نرائن ملا