تمہیں کچھ خبر ہے
کہ جب میں نہیں تھا تو تب میں کہاں تھا
میں اک ماس بن کر کسی سخت گھیرے میں جکڑا ہوا تھا
میں خونیں اندھیروں میں لتھڑا ہوا تھا
نہیں جانتا تھا
کہ میں ہوں کہاں ہوں
نہیں جانتا تھا
کہ تم ہو کہاں ہو
تمہیں کچھ خبر ہے
کوئی شکل لے کر میں جنما تھا جس دن
میں جنما نہیں تھا
کھلی آنکھ سے کتنے چہرے دکھے تھے
کھلی حبس کے کارن وہ چہرہ نہیں تھا
تمہیں کچھ خبر ہے
میں جس لمحے جنما گیا اس جہاں میں
اذاں میرے کانوں میں ڈالی گئی تھی
نہ جانے مجھے کیوں سنائی نہ دی تھی
مگر ایک گمبھیر ڈاڑھی چبھی تھی
میں رونے لگا تھا
مجھے وہ اذاں پر سنائی نہ دی تھی
تمہیں کچھ خبر ہے
کہ جس لمحے جنمی گئیں تم جہاں میں
میں تم سے بہت دور دشت گماں میں
یوں ہی روتے روتے جو ہنسنے لگا تھا
مری وہ ہنسی کیا وہاں آ رہی تھی
تمہیں کچھ خبر ہے
کسی ہاتھ کی ایک ہلکی سی دھپ نے
رلایا تھا تم کو
مرے کان میں تب اذاں آ رہی تھی
نظم
میڈ فار ایچ ادر
علی عمران