ہم سب کی یادوں میں ہے اک سبز دریچہ
جس میں رکھا ہے گلدان
اس گلدان میں اب تک تازہ پھول سجے ہیں
پھولوں میں دو آنکھیں ہیں
جو ماضی کی تاریک گزر گاہوں میں
جیسے شمعیں بن کر روشن ہیں
ان آنکھوں اور ہم لوگوں میں
اب وقت کا صحرا حائل ہے
دور ہیں لیکن یہ آنکھیں ہر لمحہ دیکھتی رہتی ہیں
ہم کیسے ہیں کس دیس میں ہیں
کس بھیس میں ہیں کن لوگوں میں ہیں
کون ہمیں خوشیاں دیتا ہے کون ہمیں غم دیتا ہے
ان سے بچھڑ کے کس سے ملے
اور کس سے ہوئے ہم لوگ جدا
دکھ میں اور تنہائی میں وہ کون تھا جس کو یاد کیا
ہم روئیں تو آج بھی جیسے یہ آنکھیں رو دیتی ہیں
ہم خوش ہوں تو یہ بھی خوش ہو جاتی ہیں
ان آنکھوں کا ہمیں سہارا رہتا ہے
جیسے مسافر دشت میں ہو
تو اس کا ساتھی اس پر روشن ایک ستارہ رہتا ہے
لیکن ہم لوگوں کے دل یہ سوچ کے اکثر کانپ اٹھتے ہیں
جب یہ آنکھیں بجھ جائیں گی
سبز دریچہ ہو جائے گا بند تو آخر کیا ہوگا
نظم
ماضی میں رہ جانے والی آنکھیں
حسن اکبر کمال