کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے
تیرے چہرے کے دل آویز گلابی ہالے
میرے الفاظ کا ترشا ہوا سنگ مرمر
کون سے بت میں ترے جسم جواں کو ڈھالے
تیری نوخیز جوانی کے کنوارے موتی
جگمگاتے رہے وجدان کے آئینے میں
بن گئے رشک چمن لالہ و نرگس کی طرح
داغ اور زخم تھے جتنے بھی مرے سینے میں
تیری خوشبو سے مہکنے لگا گلشن گلشن
ڈالیاں پھولوں کی جھک کر تجھے کہتی ہیں سلام
گردش وقت رکی جاتی ہے توبہ توبہ
میں نے دیکھا نہیں تجھ سا کوئی آہستہ خرام
یہ ترا پیکر صد رنگ یہ آہنگ جمال
دیکھ کر تجھ کو خیال آتے ہیں کیسے کیسے
تیرا چہرہ ہے کہ تخلیق مہ و مہر کا راز
تیری آنکھیں ہیں کہ اسرار دو عالم جیسے
تیری صورت تری معصوم و مقدس صورت
میری ہر سوچ کے آئینے میں لہراتی ہے
ہائے وہ شعر کہ موزوں نہ ہوا جو تا عمر
تو اسی شعر کی تفسیر بنی جاتی ہے
نظم
ماورا
پریم واربرٹنی