جب میں اور تو نڈھال ہو جاتے ہیں
سانسیں پھولتی ہیں
او رحم پہلے ڈھیلے اور پھر سرد پڑ جاتے ہیں
اور ہمارے چہرے اپنی اصلی حالت پر آ جاتے ہیں
تو بے اختیار سوچتا ہوں
ہمارا کیا ہوگا اگر ساتھ چھوٹ گیا
تمہارا کیا ہوگا میرے بغیر
میرا کیا ہوگا تیرے بغیر
میں تو سوچ بھی نہیں سکتا
کہ تو میرے جیتے جی مر جائے
اور نہ یہ سوچ سکتا ہوں
کہ تو کیسے روئے گی
اگر میں تم سے پہلے مر گیا
ہم کتنے بے بس اور اکیلے ہیں
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنی جانیں اک ہی قالب میں سمو لیں
تاکہ من و تو کا جھگڑا ہی مٹ جائے
ہم ایک ہی شاخ کے دو پھول ہیں
ہمارا مذاق اور مزاج ایک ہے
ہمارا لطف بدن ایک ہے
ہمارا سچا من ایک ہے
تو پھر ہم جدا کیوں ہو جائیں
کوئی راستہ نہیں کیا
کوئی چارہ نہیں کیا
ایسی کوئی صورت بنا
کہ ہم دو دلوں کو دھڑکتا
اور دنوں کو چمکتا رکھ سکیں
اور پھر
میں شہر در شہر جاگتا پھروں
کوچہ و بازار میں بھاگتا پھروں
اور تیری آواز ہمیشہ آسماں کی بلندیوں سے
اترتی رہے اور زمین کو جگاتی رہے
اور میں محبت کے ساگر پر سروں کی درشا کروں
جسم کتنا نحیف ہے
اور ہم اس لئے اس قالب میں ڈھالے گئے
کہ فنا کی لذت سے آشنا ہو جائیں
میں موت کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سوچتا ہوں
جب تیری سانسیں میرے شانوں پر دستک نہیں دیتیں
تو میں کانپ اٹھتا ہوں
میں موت کے سکوت سے ڈرتا ہوں
مگر وہ گھڑی آئے گی
جب ہم میں سے ایک پہلے زمین میں اترے گا
سوسن کے سفید اور کاسنی پھولوں کی چادر اوڑھے
ہر طرف سے رونے کی آواز آئے گی
پھر خاموشی ہوگی
سکوت ہوگا
اور قبر میں سکوت اچھا لگے گا
اور قبر سے باہر جسے سکوت برداشت کرنے کی سزا ملے گی
اس کی حالت کتنی بھیانک ہوگی
اب تو ہی بتا کیا کریں
کتنی مشکل صورت حال ہے
کہ تیرے گداز بدن کے لمس سے اور
تیرے لفظوں کی کھنکھناہٹ سے ہی
میں تیری محبت کو سمجھ سکتا ہوں
بدن سے پرے
سرحد ادراک کے اس پار
میں تم تک رسائی پانے سے قاصر ہوں
اور جب جسم کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا
تو جہاں ہم اس وقت سوچ میں گم ہیں
وہاں ایک خالی پنجرہ ہوگا
نظم
ماتم نیم شب
فاروق نازکی