برسوں گزرے
کسی جھیل میں پنکھ ڈبوئے ہوئے
صدیاں بیتیں
سر ساحل بانہہ پسارے ہوئے
وہ مان سروور
جس میں سحر کی ہلکی میٹھی دھوپ بھی ہے
پیڑوں کا گھنیرا سایہ بھی
اور قل قل کرتی خاموشی
وہ جس کی راہیں درگم سی
یہ ہنس اسے پا جائے اگر
سب گرد وہیں دھو آئے گا
سب درد ڈبو آئے گا وہیں
وہ جس کی تمنا میں دن دن
یہ پنکھ بکھرتے جاتے ہیں
یہ سانس الجھتی رہتی ہے
نظم
مان سروور
شہناز نبی