ماں تیرے بنا اب مجھے آرام نہیں ہے
لگتا ہے کہ دنیا سے کوئی کام نہیں ہے
گلشن کی بہاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
آکاش کے تاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
لاکھوں میں ہزاروں میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
تجھ جیسا مگر کوئی بھی گلفام نہیں ہے
پوری نہ ہو ہے کون سی انساں کی ضرورت
لوٹ آتا ہے ایمان پلٹ آتی ہے دولت
دنیا میں مقرر ہے ہر اک چیز کی قیمت
ماں تیری محبت کا کوئی دام نہیں ہے
ماں یاد تری دل سے بھلائی نہیں جاتی
صورت تری آنکھوں سے ہٹائی نہیں جاتی
دل کی وہ تڑپ ہے کہ دبائی نہیں جاتی
خالی تری یادوں سے کوئی شام نہیں ہے
پردیس میں اب کون تجھے یاد کرے گی
خط لکھے گی نہ لکھوں تو فریاد کرے گی
دھمکائے گی مجھ کو تو کبھی شاد کرے گی
ماں کیا ہوا اب کیوں ترا ہنگام نہیں ہے

نظم
ماں
سہیل راشد