کلام حیدری کی نذر
ماں کبھی مرتی نہیں ہے
خون ہے وہ
جسم کی رگ رگ میں ہر دم موجزن ہے
روشنی اس کے لبوں کی
اس کے بیٹوں
اور پھر بیٹوں کے بیٹیوں کے
شگفتہ عارض و لب سے ہمیشہ پھوٹتی ہے
روشنی کا یہ سفر رکتا نہیں ہے
بھائی میرے
اس قدر جل تھل نہ ہو تو
قبر کی نمناک مٹی سے ابھرتی
ایک بھر آئی ہوئی آواز سن لے
میرے بیٹے کیا ہوا جو میں نہیں ہوں
تیری ماں یہ سرزمیں ہندوستاں ہے
تیری ماں پیاری زباں اردو زباں ہے
ان کی خدمت میں نہاں عزت ہے تیری
ان کے قدموں کے تلے جنت ہے تیری
نظم
ماں کبھی مرتی نہیں ہے
ظہیر صدیقی