EN हिंदी
ماں | شیح شیری
man

نظم

ماں

حبیب جالب

;

بچوں پہ چلی گولی
ماں دیکھ کے یہ بولی

یہ دل کے مرے ٹکڑے
یوں روئے مرے ہوتے

میں دور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہوگا

میں دور کھڑی دیکھوں
اور اہل ستم کھیلیں

خوں سے مرے بچوں کے
دن رات یہاں ہولی

بچوں پہ چلی گولی
ماں دیکھ کے یہ بولی

یہ دل کے مرے ٹکڑے
یوں روئیں مرے ہوتے

میں دور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہوگا

میداں میں نکل آئی
اک برق سی لہرائی

ہر دست ستم کانپا
بندوق بھی تھرائی

ہر سمت صدا گونجی
میں آتی ہوں میں آئی

میں آتی ہوں میں آئی
ہر ظلم ہوا باطل

اور سہم گئے قاتل
جب اس نے زباں کھولی

بچوں پہ چلی گولی
اس نے کہا خوں خوارو!

دولت کے پرستارو
دھرتی ہے یہ ہم سب کی

اس دھرتی کو نا دانو!
انگریز کے دربانو

صاحب کی عطا کردہ
جاگیر نہ تم جانو

اس ظلم سے باز آؤ
بیرک میں چلے جاؤ

کیوں چند لٹیروں کی
پھرتے ہو لیے ٹولی

بچوں پہ چلی گولی