وہ کون ہے جو اداس راتوں کی چاندنی ہیں
کئی دعائیں لبوں پہ لے کر
ملول ہو کر
بھلا کے ساری تھکان دن کی
یہ سوچتی ہے
کہ میں نہ جانے ہزار میلوں پرے جو بیٹھا ہوں
کس طرح ہوں
وہ کون ہے جو اداس راتوں کے رت جگے میں
دعاؤں کی مشعلیں جلانے کھڑی ہوئی ہے
دعائیں جس کی مرے لئے ہیں
میں ان دعاؤں کے زیر سایہ
زمین سے آسمان کی جانب یوں محو پرواز ہوں کہ جیسے
بشر گزیدہ خدا سے ملنے کو جا رہا ہو
پھر ایک لمحے کو میرے اندر سے اتنی آوازیں گونجتی ہیں
میں ان سے برسوں سے آشنا ہوں
یہ ہاتھ جو کہ بلند ہو کر لرز رہے ہیں
یہ ہاتھ میرے لیے تحفظ کا استعارہ
یہ ہاتھ میرے لیے جہاں کی
ہزار خوشبو سے بالاتر ہیں
یہی تو ہیں وہ جنہوں نے مجھ کو
قدم اٹھانا قدم بڑھانا سکھا دیا ہے
نظم
ماں
بقا بلوچ