EN हिंदी
معلوم نہیں کیوں | شیح شیری
malum nahin kyun

نظم

معلوم نہیں کیوں

شورش کاشمیری

;

یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں
رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں

مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب
مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں

تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں
ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں

اب خون کے دھبے ہیں مدیروں کی قبا پر
خامہ دم صمصام ہے معلوم نہیں کیوں

خون رگ اسلام سے زہراب و سبو تک
ابہام ہی ابہام ہے معلوم نہیں کیوں

ہر بات پہ تعزیر ہے ہر قول پہ زنجیر!
ہر شاخ پہ اک دام ہے معلوم نہیں کیوں

جمہور کی یلغار سے ہر قصر شہی میں
کہرام ہی کہرام ہے معلوم نہیں کیوں