EN हिंदी
مال روڈ سے گزرتے ہوئے اک نظم | شیح شیری
mal-road se guzarte hue ek nazm

نظم

مال روڈ سے گزرتے ہوئے اک نظم

نینا عادل

;

اس رستے پر دو جسموں کا اک سایہ تھا!
اور دو روحوں کا اک مسلک!

گونج رہا تھا اس رستے پر حرف کا پہلا سناٹا
دھڑکن کی تسبیح مسلسل اسم انوکھے پڑھتی تھی

رسوائی کی شوخ ہوائیں بے باکی سے رقصاں تھیں
اس رستے پر گہرے بادل دھوپ کرن سے لڑتے تھے

خواب کے پنچھی انجانی سمتوں میں اڑانیں بھرتے تھے!
پھولوں نے خوشبو کا منتر پھونک دیا تھا سینوں پر!

اس رستے پر تم تھے (شاید خود سے ناواقف)
اس رستے پر میں تھی! اور میں تم میں شامل تھی

زاد سفر میں ایک تھکن تھی، ایک دکھن اور ایک یقیں!!
ہر قلب سرائے ہوتا ہے اور نے ہی گزر گہہ ہر رستہ

کچھ رستوں سے لوٹ بھی جائیں، دور نہیں جا سکتے ہم
کچھ منظر بن جاتے ہیں نادیدہ حصہ آنکھوں کا

کچھ لمحوں کی قید ہمیشہ دل کو کاٹنی پڑتی ہے