EN हिंदी
ماحول | شیح شیری
mahaul

نظم

ماحول

نذیر مرزا برلاس

;

اب ستاروں میں جوانی نہیں رقصاں کوئی
چاند کے نور میں نغمات کے سیلاب نہیں

دل میں باقی نہیں امڈا ہوا طوفاں کوئی
روح اب حسن اچک لینے کو بیتاب نہیں

اب فروزاں سی نہیں قوس قزح کی راہیں
انہی راہوں سے افق پار سے گھوم آتے تھے

منتظر اب نہیں فطرت کی گلابی باہیں
ہم جنہیں جا کے شفق زار سے چوم آتے تھے

اب گھٹاؤں میں نہیں حوصلے رندانہ سے
اب فضاؤں میں ہیں ولولے دیوانہ سے

روح احساس کی تلخی سے بجھی جاتی ہے
ایسے ماحول کے زنداں سے رہا کر مجھ کو

وہی پہلے سے حسیں خواب عطا کر مجھ کو