EN हिंदी
معدوم ہوتی خوشبو | شیح شیری
madum hoti KHushbu

نظم

معدوم ہوتی خوشبو

شہاب اختر

;

اب کبھی اچانک سامنا ہوتا ہے
تو کھنکتی مہکتی

یادوں کے دھندلکے
وہ سارے چمبن

وہ سارے لمس
وہ ساری خوشبوئیں

بکھرنے لگتی ہیں
ہم حیرت زدہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں

کہ اب کیا باقی بچا ہے
اس بے نام شناخت کے

جو ہم
دونوں کے بیچ سے

دھیرے دھیرے
معدوم ہوتی جا رہی ہے