اب کبھی اچانک سامنا ہوتا ہے
تو کھنکتی مہکتی
یادوں کے دھندلکے
وہ سارے چمبن
وہ سارے لمس
وہ ساری خوشبوئیں
بکھرنے لگتی ہیں
ہم حیرت زدہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں
کہ اب کیا باقی بچا ہے
اس بے نام شناخت کے
جو ہم
دونوں کے بیچ سے
دھیرے دھیرے
معدوم ہوتی جا رہی ہے
نظم
معدوم ہوتی خوشبو
شہاب اختر