EN हिंदी
لغت محدود ہے | شیح شیری
lughat mahdud hai

نظم

لغت محدود ہے

حمیدہ شاہین

;

اداسی بات کرتی ہے کسی انجان بولی میں
سکوں کا پھول دل کے شاخچوں سے توڑ لیتی ہے

یہ نیندوں کو اٹھا لیتی ہے آنکھوں کے کٹوروں سے
کبھی کھوئی ہوئی یادیں کہیں سے کھوج لاتی ہے

بہت سی ان کہی باتیں کہیں سے گھیر لاتی ہے
ہتھیلی پر سجا لاتی ہے وہ سوکھے ہوئے پتے

رچی ہے جن کے ریشوں میں کوئی بھولی ہوئی خوشبو
لکھے ہیں جن پہ گزرے موسموں کے دل نشیں لمحے

پرانے سے پرانا قفل پل میں کھول دیتی ہے
اداسی جا اترتی ہے

بدن کے ان جزیروں پر
جنہیں ویران رکھنا ہو

اداسی ٹمٹماتی ہے
لہو کے ان علاقوں میں

جنہیں تاریک رکھنا ہو