EN हिंदी
لوری | شیح شیری
lori

نظم

لوری

کفیل آزر امروہوی

;

اے مرے نور نظر لخت جگر جان سکوں
نیند آنا تجھے دشوار نہیں ہے سو جا

ایسے بد بخت زمانے میں ہزاروں ہوں گے
جن کو لوری بھی میسر نہیں آتی ہوگی

میری لوری سے تری بھوک نہیں مٹ سکتی
میں نے مانا کہ تجھے بھوک ستاتی ہوگی

لیکن اے میری امیدوں کے حسیں تاج محل
میں تری بھوک کو لوری ہی سنا سکتی ہوں

تیرا رہ رہ کے یہ رونا نہیں دیکھا جاتا
اب تجھے دودھ نہیں خون پلا سکتی ہوں

بھوک تو تیرا مقدر ہے غریبی کی قسم
بھوک کی آگ میں جل جل کے یہ رونا کیسا

تو تو عادی ہے اسی طرح سے سو جانے کا
بھوک کی گود میں پھر آج نہ سونا کیسا

آج کی رات فقط تو ہی نہیں تیری طرح
اور کتنے ہیں جنہیں بھوک لگی ہے بیٹے

روٹیاں بند ہیں سرمائے کے تہہ خانوں میں
بھوک اس ملک کے کھیتوں میں اگی ہے بیٹے

لوگ کہتے ہیں کہ اس ملک کے غداروں نے
صرف مہنگائی بڑھانے کو چھپایا ہے اناج

ایسے نادار بھی اس ملک میں سو جاتے ہیں
ہل چلائے ہیں جنہوں نے نہیں پایا ہے اناج

تو ہی اس ملک میں نادار نہیں ہے سو جا
اے مرے نور نظر لخت جگر جان سکوں

نیند آنا تجھے دشوار نہیں ہے سو جا