EN हिंदी
لوہے کا لباس | شیح شیری
lohe ka libas

نظم

لوہے کا لباس

سعید الدین

;

میں اپنے آپ کو
ایک لوہے کے لباس میں پاتا ہوں

شاید کبھی
یہ کوئی زرہ رہی ہو

لیکن اب یہ میری قبر ہے
میں اپنے تحفظ کے معاملے میں

بہت محتاط رہا ہوں
اور اب

ایک لوہے کے لباس میں
گھٹ کر مر رہا ہوں

یہ لباس
مجھے بہت سے ہتھیاروں کی مار سے محفوظ رکھتا ہے

یہ میرے بدن پر
نہ تنگ ہے

نہ ڈھیلا
البتہ میں اس لباس میں

چل پھر نہیں سکتا
باہر سے

اس کا جائزہ نہیں لے سکتا
نہ اٹھ کر کھڑا ہو سکتا ہوں

لوہے کے لباس میں
آدمی بڑا محفوظ رہتا ہے

وہ تمام شہر کو
اپنے سامنے جلتا

اور تمام لوگوں کو مرتا دیکھ سکتا ہے
لوہے کے لباس میں آدمی

کسی کی عبادت نہیں کر سکتا
کسی کا ہاتھ نہیں تھام سکتا

لوہے کے لباس میں آدمی
زندگی پر

تھوک نہیں سکتا