کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مارے گئے
اور کچھ پیدل چلتے ہوئے
کام پر جانے والوں کا رخ گھر کی طرف ہو گیا
اور گھر جانے والے
قبرستان پہنچ گئے
دیوار کے پیچھے چھپے ہوئے لوگ بھی مارے گئے
اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرنے والے بھی
چھت پر سوئے ہوئے لوگ بھی ختم ہوئے
کھڑکیوں سے جھانکتے ہوئے بھی
ہر سڑک پر موت چل رہی تھی
اور ہر دیوار پر
اس کے ہاتھوں کے نشان موجود تھے
کپڑے کو پانی میں ڈبو کر جو لوگ
دیواریں صاف کر رہے تھے
وہ بھی آخر میں مارے گئے
نظم
لوگ
ذیشان ساحل