EN हिंदी
لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی | شیح شیری
lekin baDi der ho chuki thi

نظم

لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی

پروین شاکر

;

اس عمر کے بعد اس کو دیکھا!
آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں

ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی

لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
آواز میں گونجتی جدائی

بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں

تا دیر میں سوچتی رہی تھی
کس ابر گریز پا کی خاطر

میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا

میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو

لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!