اب خدا کو بھی ذرا آرام کرنا چاہیئے
اک زمانے سے مسلسل کر رہا ہے
تین شفٹیں
اور دنیا بھر کے تہواروں پہ بھی
مل نہیں پائی کبھی رخصت اسے
ہفتہ واری یعنی وہ جو دا اینڈ پہ ایک چھٹی
ساری دنیا میں ہی دی جاتی ہے اب
اس کی وہ چھٹی ازل سے بند ہے
سینکڑوں بیماریوں میں
کام کرتے ہی اسے پایا ہے میں نے
نہ تو بیٹا ہے کسی کا اور نہ باپ
کوئی رشتے دار بھی اس کا نہیں
لو افیئر یا کسی شادی کا کوئی ذکر بھی آیا نہیں
پھر بھی اس کو ایک خلقت
ایک باپ
پر یہ ایسا باپ ہے
بیٹے کو مصلوب ہونے سے بچا پایا نہیں
نہ تو آتا ہے نہ جاتا ہے کہیں
اس لیے سالانہ رخصت بھی نہیں ملتی اسے
یوں بھی بوڑھا ہو چکا ہے
کام اس سے لے لیے جائیں تو اک دن
بوریت کے بوجھ میں دب کر کہیں مر جائے گا
نظم
لیکن
انور سین رائے