ابلیس مرے دل میں وہ زندہ تمنا دے
جو غیروں کو اپنا لے اور اپنوں کو ٹرخا دے
بھاشن کے لیے دم دے اور توند کو پھلوا دے
پایا ہے جو اوروں نے وہ مجھ کو بھی دلوا دے
پیدا دل ووٹر میں وہ شورش محشر کر
جو جوش الیکشن میں ڈنکا مرا بجوا دے
میں اپنے علاقہ کے لوگوں کو بھی گھپلا دوں
وہ شوق سیاست دے وہ جھوٹ کا جذبہ دے
میں نور صداقت سے پرہیز کروں ہر دم
سینے میں سیاہی کا بہتا ہوا دریا دے
احساس عنایت کر کرسی کی محبت کا
امروز کی شورش میں بے فکریٔ فردا دے
بے دال کے بودم پر رکھ دست کرم آقا
زندانیٔ ظلمت کی تقدیر کو چمکا دے
نظم
لیڈر کی دعا
اسرار جامعی