EN हिंदी
لے چل اے عشق | شیح شیری
le chal ai ishq

نظم

لے چل اے عشق

محشر بدایونی

;

یہ گلستاں یہ لب جو یہ پرندوں کے ہجوم
پھول پر ٹوٹ کے بھونروں کا یہ رقص معصوم

ان غریبوں کو مری وحشت دل کیا معلوم
غم کا احساس یہاں بھی ہے بدستور مجھے

لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے
مطرب آسودگی ساز مجھے دیتا ہے

ایک تسکین غم انداز مجھے دیتا ہے
کوئی ہر نغمے سے آواز مجھے دیتا ہے

یہ کرشمے تو کیے دیتے ہیں مسحور مجھے
لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے

یہ وہ خلوت ہے جہاں معصیتیں گاتی ہیں
عصمتیں کوڑیوں کے مول بھی بک جاتی ہیں

شوخ نظریں تو مرے نفس کو پگھلاتی ہیں
اس جہنم میں ٹھہرنا نہیں منظور مجھے

لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے
اس ارادے سے کہ کانٹوں سے چھڑا لوں دامن

میں بیاباں سے پلٹ آیا تھا سوئے گلشن
خار تو خار یہاں پھول بھی نکلے دشمن

کر سکیں گی یہ فضائیں بھی نہ مسرور مجھے
لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے

میرے مجروح تبسم پہ خفا ہیں احباب
میری مظلوم خموشی پہ ہیں کیا کیا نہ عتاب

بن نہیں پڑتا مجھے ان کے سوالوں کا جواب
کیا کروں میں کہ خوشی کا نہیں مقدور مجھے

لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے
یہ حسیں رہ گزریں اور یہ ایواں سارے

جن کے سائے سے لرزتے ہیں غموں کے مارے
خون مزدور پئے سر بہ فلک مینارے

مجھ کو ڈر ہے نہ بنا دیں کہیں مغرور مجھے
لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے

یہ غریبی کا دیار آہ یہ عسرت کا جہاں
کھوکھلے جسم لیے آہ یہ بھوکے انساں

نالے کرتی ہوئی لاشیں یہ اسیر زنداں
یہ سماں کرنے لگا مضطر و رنجور مجھے

لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے
یہ شوالے بھی ہیں کیا جن میں ریا پلتی ہے

یہاں ہر سینے میں سنگین بدی ڈھلتی ہے
یہاں مذہب پہ تعصب کی چھری چلتی ہے

یہاں رستے سے نظر آتے ہیں ناسور مجھے
لے چل اے عشق یہاں سے بھی کہیں دور مجھے