EN हिंदी
لوٹ چلیے | شیح شیری
lauT chaliye

نظم

لوٹ چلیے

چندر بھان خیال

;

سوختہ جاں سوختہ دل
سوختہ روحوں کے گھر میں

راکھ گرد آتشیں شعلوں کے سائے
نقش ہیں دیواروں پر مفروق چہرے

لوٹ چلیے اپنے سب ارمان لے کر
جھوٹ ہے گزرا زمانہ

اور کسی اجڑے قبیلے کی بھٹکتی روح شاید
اپنے مستقبل کا دھندلا سا تصور

بحر غم کے درمیاں ہے
ایک کالے کوہ کی مانند یہ امروز اپنا

کوہ جس پر رقص کرتے ہیں ستم خوردہ تمناؤں کے آسیب
لوٹ چلیے

اپنے سب ارمان لے کر
سوچیے تو

یوں عبث آتش کدوں میں کیوں جلیں دل
کیوں رہیں ہر وقت سینوں پر چٹانیں

دیکھیے تو
چند لقمے کچھ کتابیں

ایک بستر ایک عورت
اور کرائے کا یہ خالی تنگ کمرا

آج اپنی زیست کا مرکز ہیں لیکن
تیرگی کا غم انہیں بھی کھا رہا ہے

چار جانب زہر پھیلا جا رہا ہے
لوٹ چلیے

اپنے سب ارمان لے کر
اپنے سب پیمان لے کر

جسم لے کر جان لے کر