EN हिंदी
لرزتے سائے | شیح شیری
larazte sae

نظم

لرزتے سائے

احمد ندیم قاسمی

;

وہ فسانہ جسے تاریکی نے دہرایا ہے
میری آنکھوں نے سنا

میری آنکھوں میں لرزتا ہوا قطرہ جاگا
میری آنکھوں میں لرزتے ہوئے قطرے نے کسی جھیل کی صورت لے لی

جس کے خاموش کنارے پہ کھڑا کوئی جواں
دور جاتی ہوئی دوشیزہ کو

حسرت و یاس کی تصویر بنے تکتا ہے
حسرت و یاس کی تصویر چھناکا سا ہوا

اور پھر حال کے پھیلے ہوئے پردے کے ہر اک سلوٹ پر
یک بیک دامن ماضی کے لرزتے ہوئے سائے ناچے

ماضی و حال کے ناطے جاگے