EN हिंदी
لہو روتا ہے | شیح شیری
lahu rota hai

نظم

لہو روتا ہے

اشوک لال

;

سچ کا ہوتا ہے محافظ جو نڈر ہوتا ہے
کوئی حاکم ہو خدا ہو کہ خدا کا بندہ

وو جو معصوم ہے ان سب سے پرے ہوتا ہے
من جو چنگا ہو ہتھیلی میں بسی ہے گنگا

ظلم سے جبر سے ظلمت سے مخاطب ہو کر
آنکھ سے آنکھ ملاتا ہے ہر اک سکھ دکھ سے

اس کی خاموشی ہی اعلان ہوا کرتی ہے
اس کی آواز میں چالیں ہیں نہ کوئی دھوکے

ہو بھلے تنہا اسے سینا کی درکار نہیں
باہو بل چاہئے اس کو نہ کوئی بھی شمشیر

وہ قیامت ہی قیامت میں جیا کرتا ہے
آخری اس کی عدالت ہے فقط اپنا ضمیر

آج معلوم ہوا خواب کا خاکہ تھا یہ
یوں نہ تھا میں نیں فقط سوچا تھا یوں ہوتا ہے

قتل ہو جاتی ہے انصاف کی امید اگر
بھائی چارے کا ارادہ بھی لہو روتا ہے