EN हिंदी
لہو کو زوم کرتے ہیں | شیح شیری
lahu ko zoom karte hain

نظم

لہو کو زوم کرتے ہیں

خالد کرار

;

دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے
مسلسل خامشی ہے

سڑک کی پیلی لکیر
سر پیٹتی ہے

دور تک فٹپاتھ پر روندے ہوئے سائے
پول پر بجلی کے کھمبے سے لٹکتی ایک چمگادڑ

صبح کا زرد چہرہ رات کے اندوہ کا احوال ایک چوپایہ
اور نکڑ پر کھڑے ہو تم

مسلسل خامشی ہے
دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے

مسلسل خامشی ہے
مرے کمرے کے اندر

ہاں مگر تاریخ روشن ہے
ہزاروں سال کے تجربے بانہیں پسارے ایسے بیٹھے ہیں

کہ جیسے شہر بھر کی خاموشی سے مطمئن ہوں
میرے کمپیوٹر کی ڈیسکٹاپ

کل کی اک تصویر اپنی کہانی بولتی ہے
نہ جانے کیوں یہ منظر دیکھتے ہی

سڑک پر پھر شور و گریہ جاگ اٹھتا ہے
سروں کی بھیڑ اگتی ہے

رواں رہتے ہیں سائے
بجز اس کے مسلسل خاموشی ہے

مگر دل چاہتا ہے خاموشی کو ایسے توڑوں
تمہارے پاس جاؤں

اور کہوں بندوق کو نیچے کرو
آؤ نا مری ڈیسکٹاپ پر کل کا فوٹو تم بھی دیکھو

تم بھی دیکھو
میں لہو کو زوم کرتا ہوں