EN हिंदी
لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو | شیح شیری
lahu ko surKH gulabon mein band rahne do

نظم

لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو

عادل منصوری

;

لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو
شکستہ خواب کے شیشوں پہ اس کا عکس پڑے

سیاہ مٹی کے نیچے سفید بال جلے
کسی کے دانت مری انگلیاں چبا جائیں

خلا کے زینے سے پرچھائیاں اترنے لگیں
ہر ایک لمحے کے چہرے پہ دھوپ مرنے لگے

اداس وقت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلوں
بزرگ باپ کے چہرے کی جھریاں چوموں

خموش ہیں در و دیوار کھڑکیاں چپ ہیں
گلی کے موڑ پہ رک جائے رات کا سایہ

مجھے نہ روکو مجھے میری ماں سے ملنے دو
یہ میرے بھائی یہ بہنیں یہ حاملہ بیوی

لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو