لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو
شکستہ خواب کے شیشوں پہ اس کا عکس پڑے
سیاہ مٹی کے نیچے سفید بال جلے
کسی کے دانت مری انگلیاں چبا جائیں
خلا کے زینے سے پرچھائیاں اترنے لگیں
ہر ایک لمحے کے چہرے پہ دھوپ مرنے لگے
اداس وقت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلوں
بزرگ باپ کے چہرے کی جھریاں چوموں
خموش ہیں در و دیوار کھڑکیاں چپ ہیں
گلی کے موڑ پہ رک جائے رات کا سایہ
مجھے نہ روکو مجھے میری ماں سے ملنے دو
یہ میرے بھائی یہ بہنیں یہ حاملہ بیوی
لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو
نظم
لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو
عادل منصوری