EN हिंदी
لہو لہو آنکھیں | شیح شیری
lahu lahu aankhen

نظم

لہو لہو آنکھیں

طارق قمر

;

ملی نہ میدان کی اجازت
تبھی تو قاسم یاد آیا

کہ ایک تعویذ میرے بابا نے خود مرے سامنے لکھا تھا
جو میرے بازو پہ اب تلک بھی بندھا ہوا ہے

اسے بصد اشتیاق کھولا
تو اس میں لکھا ہوا یہی تھا

اے لال اے میری جان قاسم
حسین سے جب نگاہ پھیرے یہ کل زمانہ

چہار جانب سے حملہ ور ہوں مصیبتیں جب
رہ وفا میں جھجک نہ جانا

حسین پر جان دینے والوں میں سب سے آگے قدم بڑھانا
مری طرف سے چچا کے قدموں میں جاں لٹانا

اور اپنے اجداد کی شہادت کا قد بڑھانا
حسین تعویذ پڑھ رہے ہیں

اور ان کی آنکھیں لہو لہو ہیں