میں سوچتا ہوں
کہ میرے تن کا یہ نچلا حصہ
جو معصیت کے مہیب غاروں میں گر گیا تھا
جسے کوئی دیو عین عہد شباب میں
اپنے غار کی تیرگی میں محبوس کر گیا تھا
جسے گنہ کا گھنا اندھیرا
خود اپنے خوں میں امڈتی آتش کا رقص
گردش کا شور و غوغا
وہ عشق پیچاں کی بیل جسے گٹھے ہوئے خواب
قہوہ رنگت گداز کو لہو کے
لمس ابریشمی ملائم بھرے بھرے سے گلابی ہونٹوں کا
لذتیں لہر لہر بن کر ابھرتی جھاگوں کی
اندھی کھائیوں میں ڈوب جانے کی خواہشیں
عکس جھالروں کے
ہوس کی بارش کے گرم چھینٹے
وسیلے جسموں کے قرب کے انبساط تن کے
بہت ستاتے تھے اچھے لگتے تھے

نظم
لہو بولتا ہے 3
ستیہ پال آنند