EN हिंदी
لفظوں کی تجارت | شیح شیری
lafzon ki tijarat

نظم

لفظوں کی تجارت

جبّار جمیل

;

وسیع جنگل ہے ایک جانب پہاڑوں کا سلسلہ چلا ہے
شام آہستگی سے پیڑوں پہ کہنیاں ٹیکتی ہے

سورج کرن کرن اپنی روشنی رہن رکھ کے غربی دیار فلک سے
بادلوں کا لحاف لے کر

یک شبی نیند کے تصور میں اونگھتا ہے
خزاں رسیدہ انار کا اک شجر کھڑا ہے

میں جس کے نیچے
عہد و پیماں کے لعل یاقوت

اظہار و اقرار کے زمرد
کسی کو دیتا ہوں

اور لیتا ہوں
اور لفظوں کی اس تجارت پہ

اپنی نیند میں مسکرا رہا ہوں