مجھے اڑتے پرندے اچھے لگتے ہیں
مجھے ان کی اڑانوں سے
نئے آتے ہوئے سب موسموں کی آہٹیں محسوس ہوتی ہیں
مجھے ان کی اڑانیں
بارشیں اور پھول کھلنے کی بشارت دینے آتی ہیں
مجھے ان کی اڑانیں
زندگی کے راستوں پر حوصلوں کا درس دیتی ہیں
مرے ہاتھوں نے حرفوں کے گلابوں کو
انہی سے لکھنا سیکھا ہے
مگر ہجرت زدہ موسم میں
جب کوئی اکیلی کونج کر لاتی ہوئی
نیلے فلک کی وسعتوں میں اپنے کھوئے ساتھیوں کو
ڈھونڈھتی آواز دیتی ہے
مجھے بچھڑے ہوئے سب یاد آتے ہیں
مرے ہاتھوں کی پوریں لفظ لکھنا بھول جاتی ہیں
زمیں پر بارشیں
اور سرد یخ بستہ بدن کو چیرتی برہم ہوائیں
سبز پیڑوں میں گھرے آباد گھر کا راستہ روکیں
میں تنہا بیٹھ کر
بھیگے پرندوں کے پروں کے
خشک ہونے کی دعائیں مانگتا ہوں!
نظم
لفظ لکھنا بھول جاتا ہوں
محمود ثنا