لفظ کی چھاؤں میں
نیم کی پتیوں کا سفر تلخ سا
سیلنی جسم میں روح بے چین بھی
شہریت کے تقاضے جو ٹوٹے کبھی
زندگی کے عمل میں بھی شک آ پڑا
ٹوٹ کر کس طرح جڑ گئی چاندنی
دھوپ لمحوں کے چہروں سے گرتی ہوئی خاک میں جا ملی
سر جھکائے ہوئے کون سڑکوں پہ یوں تجھ کو ڈھونڈا کرے
ہم کلامی کی عزت کا بادل سدا سر پہ سایہ فگن
جب تیری خامشی کے معانی کے ہونٹوں سے ٹپکے ہوئے
دودھ کے چند قطرے سمندر بنے
بادبانوں کے آغوش کھولے ہوئے کشتیاں چل پڑیں
تشنگی کے جزیروں پہ سایہ کہاں
صبح کا موم پگھلا تو خوابوں کے دل بجھ گئے
بجھ گئی رات بھی
بجھ گئی لفظ کے ہاتھ کی بات بھی
لفظ میدان میں سرنگوں رہ گئے
سنگساری کی لذت لہو بن گئی
کون پوشیدہ جذبوں کی چلمن بنے
لفظ کی چھاؤں میں کوئی سورج ڈھلے
نظم
لفظ کی چھاؤں میں
عادل منصوری