اے خدا
لفظ دے مجھے کچھ تو
دل کے سادہ ورق پہ کچھ تو اتار
بھر مرے کاسۂ خیال کو تو
اس سے پہلے جو تو نے لفظ دیے
رہن رکھے ہیں سارے وقت کے پاس
اب مرے پاس اور کچھ بھی نہیں
اک زباں ہے جو کتنی صدیوں سے
لفظ کا لمس پانا چاہتی ہے
میرے ہونٹوں پہ اسم رکھ اپنا
اور سوچوں کو دے زمام خیال
میں کہ خاموش ہوں زمانوں سے
مجھ کو بھی حرف آشنا کر دے
بھر مرے کاسۂ خیال کو تو
اے خدا
لفظ دے مجھے کچھ تو

نظم
لفظ دے مجھے کچھ تو
طارق شاہد