اب تو شاید اسی انداز سے جینا ہوگا
اس کے ہر ظلم کو بیداد کو چپ چاپ سہیں
یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے مگر آٹھوں پہر
اک یہی فکر ہے کس طرح کہیں کس سے کہیں
دیکھتی آنکھوں سے ہم سے تو یہ ہوگا نہ کبھی
اس بھری بزم میں ہم صورت تصویر رہیں
بات کہنے کا جو انجام ہوا کرتا ہے
آشکارا ہے کسی سے بھی تو مستور نہیں
وہ جو آقاؤں کے دستور کو ٹھکرا کے بڑھیں
وادیٔ دار و رسن ان سے کوئی دور نہیں
ہم بھی شاید اسی منزل میں پہنچ کر دم لیں
دہر میں غلبۂ ظلمت ہمیں منظور نہیں
قید کیا شے ہے سلاسل کی حقیقت کیا ہے
جسم پابند سہی فکر تو محصور نہیں
دل میں جو بات کھٹکتی ہو اگر دل میں رہے
مصلحت کیشی ہے یہ شیوۂ منصور نہیں
نظم
لب گویا
احمد راہی