سننے کو بھیڑ ہے سر محشر لگی ہوئی
تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
رندوں کے دم سے آتش مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابر لگی ہوئی
آباد کر کے شہر خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغ ستم گر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان قاتل و خنجر لگی ہوئی
''لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی''
نظم
لاؤ تو قتل نامہ مرا
فیض احمد فیض