EN हिंदी
لاجونتی | شیح شیری
lajwanti

نظم

لاجونتی

خورشید اکبر

;

جس کے پہلو میں باغ جنت ہے
اس کے پہلو سے اٹھ کے آیا ہوں

جس کے پہلو میں آگ جلتی ہے
اس کے پہلو میں جل کے دیکھا ہے

جس کے پہلو میں برف جمتی ہے
اس کو اپنی حرارتیں دے کر

میں نے پانی بنا دیا لیکن
زندگی تم کو شرم آتی ہے

میری محبوب ہو گئی کب سے
مجھ سے منسوب ہو گئی کب سے

تم نے کاٹی فسادیوں کے ساتھ
کب قیامت کے جیسی بھاری رات

راحتوں کا بھی کیمپ ہوتا ہے
تم کو معلوم ہی نہیں شاید

میرے پہلو میں آ کے لیٹی ہو
تم مری خواب گاہ جیسی ہو

پھر بھی چھونے سے ڈر رہا ہوں میں
اور ہر لمحہ مر رہا ہوں میں

سچ کہوں تم تو لاجونتی ہو