EN हिंदी
لا انتہا ابھی | شیح شیری
la-intiha abhi

نظم

لا انتہا ابھی

کرامت علی کرامت

;

نہ جانے وہ لوگ گم کہاں ہیں
چھلک رہی تھی

فلک کے ساغر سے رحمت حق کی تند صہبا
فضاے ایام میں محبت کی فاختائیں بھی

پنکھ پھیلائے اڑ رہی تھیں
دیار‌ جرماں میں جھانکتی تھیں

امید فردا کی نرم کرنیں
مگر یہ آشوب وقت کا ہے اثر کہ جس سے

جھلس گئے ہیں تصوروں کے حسین چہرے
فضا بھی خاموش روح بیتاب

دور مندر کے دیوتا چپ
دھڑکتے دل کی یہ سنسناہٹ

کھسکتے پتوں کی سرسراہٹ
پڑے ہیں خاموش کھوکھلے مندروں کے ناقوس

بجھے پڑے ہیں تمدنوں کے حسین فانوس
یہاں اجنتا کا اور کونارک کا

فن تخلیق ہچکیاں لے رہا ہے پیہم
یہاں تو اب صوموں میں اور مسجدوں میں

گھر کر چکے ہیں تخریب کے ابابیل
نفس نفس میں گھٹن کا جذبہ

رگوں میں تلخی ہے زہر غم کی
بھٹکتے رہنے کو اب خلا کے سوا نہیں کچھ

گئے تھے جو لوگ اس طرف سے
انہیں کا ہے انتظار ہم کو

وہ آئیں گے کب وہ آئیں گے کب
یہاں اہنسا کو گھن لگا ہے

یہاں محبت کی وادیوں میں اگی ہے کائی
پیام انسانیت کو گویا لگی ہے دیمک

وہ درد دل کی لویں
جو مثل چراغ جلتی رہی تھیں صدیوں

نہ جانے کیوں آج بجھ چکی ہیں
نظر کو دھندلا رہی ہے کیوں دور کی سیاہی

گئے تھے کچھ لوگ جو ادھر سے
انہیں کا ہے انتظار ہم کو

فلک کے لا انتہا ابھی میں
نہ جانے وہ لوگ گم کہاں ہیں