اکثر
لکھتے ہوئے آتا ہے
دل میں یہ سوال
کیا لکھوں
اوس اجلے سویرے کو
جو لاتا ہے اپنے ساتھ ڈھیروں امیدیں
یا لکھوں
رات کے اس اندھیرے کو
جو دے جاتا ہے آنکھوں میں ہزاروں سپنے
کیا لکھوں
ان مہکتی ہواؤں کو
جو ہر پل احساس دلاتی ہیں
کہ زندہ ہو تم
یا لکھوں
ان ان گنت دعاؤں کو
جن میں ہوں میں صرف میں
کیوں نہ لکھوں
اس حسین چاند کو
جو سکھاتا ہے مجھے
سر اٹھا کر آسماں کی اور دیکھنا
یا لکھ دوں
ان اجلے ستاروں کو
جو سکھاتے ہیں
کھد کو سمیٹ کر چمکتے رہنا
اور اگر بکھرو بھی
تو ٹوٹ کر دعا بن جانا
نظم
کیا لکھوں
رشمی بھاردواج