یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
Dogs
Tramping about the streets aimlessly, these pariah dogs,
born to the prerogative of beggary—
their only treasure is the world’s scorn
their only wages, the world’s reproof
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
Not a moment's respite, day or night—
dirt their abode, drains their rest-houses.
نظم
کتے
فیض احمد فیض