سیاسیات میں اونچا ہے نام کرسی کا
کیا ہے میں نے بہت احترام کرسی کا
گھسیٹا اپنی طرف انتظام کرسی کا
یہ میرا کام تھا باقی ہے کام کرسی کا
یہ گول میز سے کہتی ہے اب کہ تو کیا ہے
چیئر کے سامنے صوفے کی آبرو کیا ہے
کوئی کلرک کوئی منیجر کی کرسی ہے
جہاں ہے نرس وہیں ڈاکٹر کی کرسی ہے
جو ایک ٹانگ کی ٹوٹی کمر کی کرسی ہے
وہ میرے شہر کے اک کونسلر کی کرسی ہے
برادری کی بدولت امین ہیں موصوف
پچاس سال سے کرسی نشین ہیں موصوف
چیئر پہ بیٹھ کے سارے ہی شان والے ہیں
جو پر کٹے تھے وہ اونچی اڑان والے ہیں
جو بے مکان تھے دس دس مکان والے ہیں
وہ صرف پان نہیں پاندان والے ہیں
عجیب رسم چلی ہے کہ اس زمانے میں
عوام دھوپ میں کرسی ہے شامیانے میں
مشاعرے میں بھی اکثر اچھل گئی کرسی
غزل کے چلنے سے پہلے ہی چل گئی کرسی
ہر ایک میز سے آگے نکل گئی کرسی
بدل گئے رفقا جب بدل گئی کرسی
حرام مال سے جائز کمائی بہتر ہے
نئی چیئر سے پرانی تپائی بہتر ہے
اسی کا ذکر بسوں میں بھی بات بات پہ ہے
تمام ریل میں جھگڑا اسی کی ذات پہ ہے
یہی سوار اراکین بلدیات پہ ہے
اسی کا حکم قلم پر کبھی دوات پہ ہے
مشاعرے میں بھی جھگڑا اسی عبارت کا
کبھی مقام کبھی کرسیٔ صدارت کا
بنی تھی کرسی جو اک ہیڈ ماسٹر کے لیے
جناب ہیڈ اسے لے گئے ہیں گھر کے لیے
بنا دیا جنہیں کرسی نے عمر بھر کے لیے
چیئر ہے ان کے لئے وہ نہیں چیئر کے لیے
امانتاً جو چیئر پر بٹھائے جاتے ہیں
وہ لوگ خود نہیں اٹھتے اٹھائے جاتے ہیں
کچھ اس ادا سے یہ دل کش صفات چلتی ہے
کسی رئیس کی گویا برات چلتی ہے
جہاں بھی جاؤ یہی ساتھ ساتھ چلتی ہے
چپک کے جیسے شریک حیات چلتی ہے
یہ ذائقہ بھی عجب ہے کہ چکھ نہیں سکتے
ہم اس کی گود میں تشریف رکھ نہیں سکتے
نظم
کرسی
خالد عرفان