EN हिंदी
کندن | شیح شیری
kundan

نظم

کندن

مخمور جالندھری

;

کندن ساٹھ برس کا بوڑھا چھوٹے قدم اٹھاتا ہے
صبح سویرے دھیرے دھیرے پل پر بیٹھنے آتا ہے

دائیں بائیں اس کی نگاہیں دوڑتی ہیں کچھ ڈھونڈھتی ہیں
تیس برس پہلے کا زمانہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے

بیتے دنوں کا تصور دل کے دکھ کو اور بڑھاتا ہے
دنیا اک دن اس کی تھی یہ دنیا آخر کس کی ہوئی

کندن چلتے چلتے بیٹھے بیٹھے بھی تھک جاتا ہے
جیسے اسے قرب منزل سے ڈر لگتا ہو خوف آتا ہے

کندن دھیرے چلتا ہے اور تیزی سے گھبراتا ہے
بچوں کی چستی چالاکی پر اکثر جھنجھلاتا ہے

''ایک مصیبت ایک قیامت نئے زمانے کی اولاد
اگلے وقت کی عظمت اور شرافت کر ڈالی برباد''

اکثر اگلے وقت کی باتیں ہنس ہنس کے دہراتا ہے
اس کی کمر کا خم اکثر اس موقع پر تن جاتا ہے

جب کوئی اسکول کو جاتی پھول سی شعلہ گوں لڑکی
دیکھتا ہے بول اٹھتا ہے یہ کیسا زمانہ آیا ہے

رنگ روپ کے بیچنے والی کا سا سوانگ رچایا ہے
اچھا ایشور تیری مرضی!! یہ بھی مصیبت سہنا تھی

شکر ہے اگلے وقتوں کی بیٹی کے ایسے ڈھنگ نہ تھے
لاج ہی اس کا جوبن تھی اور لاج ہی اس کا گہنا تھی

لیکن دوشیزہ کے سراپا میں کندن کھو جاتا ہے
کندن صبح سویرے نہر کے پل پر بیٹھنے آتا ہے

اکثر اگلے وقت کی باتیں ہنس ہنس کے دہراتا ہے
اس کی کمر کا خم اکثر اس موقع پر تن جاتا ہے

کتنی خوش اسلوبی سے اپنی خفت کو چھپاتا ہے