EN हिंदी
کچھ نہیں بدلنے والا | شیح شیری
kuchh nahin badalne wala

نظم

کچھ نہیں بدلنے والا

مادھو اوانہ

;

پھر وہی ماحول وہی شور شرابہ
وہی کچھ نئے پرانے چہروں کا بول بالا

پھر سے سج گئی تبدیلیوں کی منڈیاں
پر اصل میں کچھ نہیں بدلنے والا

پھر چیختے پھر رہے بد حواس چہرہ
پھر رچے جانیں لگیں ہیں سڈینتر گہرے

پھر سے گونجنے لگیں ہیں فضاؤں میں نعرے
پچھلگو بن گئے ہیں کچھ بھوک کے مارے

پھر سے یہ بتائی جانے لگی بدلاؤ کی باتیں
پھر سے کرسی قبضانے کو ہونے لگیں ہیں گھاتیں

پھر سے آ گیا ہے چناؤ کا موسم پانچ سالہ
پر اصل میں کچھ نہیں بدلنے والا

کچھ آ جائیں گے چہرہ نئے پرانے
بن کے رہنما لگ جائیں گے دیش کو کھانے

پھر شروع ہوگا عام آدمی کی تقدیر سے کھیل
پھر بھیجا جائے گا کچھ ہارے ہوؤں کو جیل

پھر سے نیایے کا ڈھونگ رچایا جائے گا
آدمی کو روٹی کے وعدے سے بہلایا جائے گا

پھر سے ہوگا لوٹ کھسوٹ کا ننگا ناچ
پھر جھوٹھ کو بتایا جائے گا سانچ

مجھے جلائے گی میرے اندر کی آنچ
اور ٹوٹتے سپنے چبھیں گے بن کے کانچ

پھر سے زندگی بننے لگے گی مکڑ جالا
میں جانتا ہوں کہ کچھ نہیں بدلنے والا