EN हिंदी
کچھ دے اسے رخصت کر | شیح شیری
kuchh de ise ruKHsat kar

نظم

کچھ دے اسے رخصت کر

ابن انشا

;

کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے
ہاں در پہ ترے مولا! انشاؔ بھی سوالی ہے

اس بات پہ کیوں اس کی اتنا بھی حجاب آئے
فریاد سے بے بہرہ کشکول سے خالی ہے

شاعر ہے تو ادنیٰ ہے، عاشق ہے تو رسوا ہے
کس بات میں اچھا ہے کس وصف میں عالی ہے

کس دین کا مرشد ہے، کس کیش کا موجد ہے
کس شہر کا شحنہ ہے کس دیس کا والی ہے؟

تعظیم کو اٹھتے ہیں اس واسطے دل والے
حضرت نے مشیخت کی اک طرح نکالی ہے

آوارہ و سرگرداں کفنی بہ گلو پیچاں
داماں بھی دریدہ ہے گدڑی بھی سنبھالی ہے

آوارہ ہے راہوں میں، دنیا کی نگاہوں میں
عزت بھی مٹا لی ہے تمکیں بھی گنوا لی ہے

آداب سے بیگانہ، در آیا ہے دیوانہ
نے ہاتھ میں تحفہ ہے، نے ساتھ میں ڈالی ہے

بخشش میں تامل ہے اور آنکھ جھکا لی ہے
کچھ در پہ ترے مولا، یہ بات نرالی ہے

انشاؔ کو بھی رخصت کر، انشاؔ کو بھی کچھ دے دے
انشاؔ سے ہزاروں ہیں، انشاؔ بھی سوالی ہے