خواب میں آئے مجھے مجھ سے ملائے
مجھے سیرابئ دیدار سے گلزار کرے
خواب وہ خواب کہ ہو جس تمازت کا فسوں زاد
خواب وہ خواب کہ بن جائے شکست بے داد
کتھئی رنگ گھلے سرمئی شام میں ایسے کہ شفق
خون کی آنچوں سے دہک کر پھیلے
آتے جاتے ہوئے لوگوں کی تگ و تاز بھی
اندیشوں سے انجان لگے
جاگے خدشے بھی خد و خال تمنا سے ہوں مبہوت
ہر اک عزلت جاں شوق کی شمشیر لیے
پھیل کے ساحل پایاب کو غارت کر دے
مرقد حیلۂ بے سود مٹے
کچھ اگر ہے تو ملے
کوئی گر ہے تو چلا آئے مجھے مجھ سے ملائے
مجھے سیرابئ دیدار سے گلزار کرے
نظم
کچھ اگر ہے تو ملے
کشور ناہید