سب کچھ یاد کر رہا ہوں میں
کوئی بات بھلا دینے کو
اور یہ کیسی سچائی ہے
آج بھولنے کی کوشش میں
صدیوں کی تاریخیں ازبر کر بیٹھا ہوں
میں حیراں ہوں میں ہوں پریشاں
کیسے چھپاؤں حالت اپنی
ہر کوشش لا حاصل میری
اور یہ کمرا یہ دیواریں
کھونٹی سے لٹکی شلواریں
یہ بے رونق بوڑھی راتیں
فرش پہ لپٹی بیتی باتیں
یہ سب مجھ پر بوجھ بنے ہیں
اف یہ کیسا ظلم ہے مجھ پر
جب بھی میں ننگا ہوتا ہوں
میرے تن پر چادر کوئی پڑی ہوتی ہے
وہ بھی ایک گھڑی ہوتی ہے
جب سینے پر شہر کھڑا ہو
تب کچھ بے معنی چیخوں سے
اک مطلب کی چیخ اچانک میں ہتھیا لوں
اور کسی خاموش جگہ تنہا گوشے میں
سارا مطلب چھین جھپٹ کر
فوراً اس کا گلا دبا دوں
میں شاید کچھ بھول رہا ہوں
ہاں میں سب کچھ بھول چکا ہوں
اب تنہا خالی کمرے میں
ہاتھ میں ننگا چھرا دبائے
دوڑ رہا ہوں بھاگ رہا ہوں
یہ بھی مجھ کو یاد نہیں اب
سویا ہوں یا جاگ رہا ہوں
قتل کے فوراً بعد مگر پھر
وہ سب کا سب یاد رہے گا
جسے بھولنے کی کوشش میں
صدیوں کی تاریخیں ازبر کر بیٹھا ہوں
نظم
کوشش رائیگاں
چندر بھان خیال