لب زرد پر
کوئی حمد ہے کہ گلہ
کہو
مری پیلی آنکھ میں
بجھتے خوں کا
الاؤ ہے کہ طلا
کہو
مرے دست و بازو
میں آج بھی
کوئی لمس قید ہے
اور سینے کی
بے وقاری
کے اندروں
کوئی حرف اپنا ہی صید ہے
کہ جسے رسائی
نہ مل سکی
یہ مری جھجھک کی
برید ہے کہ صلہ
کہو
کبھی ایک بات نہ کہہ سکوں
کبھی اب کہ چیخ
مجھے چاہئے وہی
دود دود سا
ایک قرب کے درمیاں
کوئی خواب خواب سا
فاصلہ
کوئی آج مجھ سے
وہ بات پوچھے
کہ جس کے معنئ دور
جانتا ہوں میں اب
کہ ہزار شعلوں
کی راکھ پر
کسی بوند آنسو
کے سیل میں
یہ گنوائے رشتوں
کا سرد پھول کھلا
کہو
لب زرد پر
کوئی حمد ہے کہ گلہ
کہو!
نظم
کوئی خواب خواب سا فاصلہ
راجیندر منچندا بانی